آرٹ فنکار کے ساتھ کیا کرتا
آرٹ دو دھاری تلوار ہے جو سب سے پہلے آرٹسٹ کے وجود کی تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔ آرٹسٹ کے لئے آرٹ فنپارے سے زیادہ فنپارہ بنانے کے عمل کا نام ہے۔ یہ عمل آرٹسٹ کو ہر بار بدل کر رکھ دیتا ہے بشرطیکہ وہ طے شدہ نتیجے سے کسی حد تک الگ رہتے ہوئے اس سرشاری کے گرد طواف کر رہا ہو جس نے اسے ظاہر سے کاٹ کر تصور کی دنیا میں رُکنے اور مزید تخلیق کرنے پر مجبور کیا ہے۔آرٹسٹ کے اوزار جادو کی چھڑی کا کام کرتے ہیں اور میٹیرئل وہ شئے ہے جس پر جادو کیا جاتا ہے۔
فنپارہ بننے سے پہلے کینوس، لکڑی، تیل اور رنگ تھے لیکن یہ سب آہستہ آہستہ ایسی وحدت میں ڈھل رہے ہیں جسے محض تصویر کہنے سے جی مطمئن نہیں ہوتا۔ فنپارہ بننے سے پہلے اوزار تھے لیکن بنتے وقت وہ آرٹسٹ کی آنکھیں اور ہاتھ پاؤں بن جاتے ہیں۔ اس کا قلم انگلی کی پوروں سے زیادہ نرم و گرم، ملائمت اور کھردرا پن محسوس کرتا ہے۔ اس فن پارے میں آرٹسٹ کسی مد بھری دُھن پر رقص کرتے ہوئے خود کو سامان سمیت مٹا کر نیا وجود بنا بنا کر، مٹا مٹا کر دیکھتا ہے۔ جوں جوں باطن مطلوبہ سرشاری سے فیض یاب ہوتا چلا جاتا ہے توں توں اس رقص، اس مصوری اور اس مشق کا اجر و ثواب نہاں خانہِ وجود میں سمٹتا چلا جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات کی تکمیل کے ایسے عمل میں منہمک رہتا ہے جس کا نتیجہ الگ مادی وجود رکھتا ہے جسے مکمل ہوتے ہی اس سے جُدا ہونا ہے اور اس کے اندر تا دیر رہنا بھی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آرٹ فطرت اور کائنات کی طرح ناتمام ہے اور حقیقت میں کبھی مکمل نہیں ہوتا۔اس سرگرمی میں مہارت اور میٹیرئل کا کردار بہت اہم ہے لیکن تجربے کی گہرائی، ماحول میں پھیلے حسن و بد صورتی کا احساس، اور غیر موجود کی جانب کشش اگر مہارت کے ہمراہ نہ ہوں تو آرٹ وجود میں نہیں آ سکتا۔
سچا آرٹسٹ اپنا سب سے پہلا ناظر اور بڑا نقاد ہوتا ہے، وہ ایسی غلطی بھی معاف نہیں کرتا جو دُنیا کی نظر میں کبھی نہیں آئے گی۔ وہ ایسے خلا کو بھی پُر کرنے میں جان لڑا دیتا ہے جسے کوئی خلا ماننے ہی کے لئے تیار نہ ہو۔ وہ اپنے وجود کے باہر سے آنے والی بے جا تعریف پر ہنس دیتا ہے اور غلط نشاندہی پر پریشان نہیں ہوتا۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ باہر سے آنے والی کون سی آواز معتبر ہے اور کون سی رائیگاں۔ اگر وہ سوچتا ہے کہ فنپارے کو فلاں شخص کے لائقِ تعریف سمجھنے پر فن کی کامیابی کا دارومدار ہے تو یہ فیصلہ بھی کسی دباؤ کے بغیر ہوتا ہے۔ اس صورت میں وہ اپنی ذات سے باہر ایک ایسے وجود کے ذوقِ نظر پر اعتبار کر رہا ہوتا ہے جس کے علم و ہنر کو وہ اپنے پیمانوں پر پرکھ کر اپنی ذات کا حصہ بنانا چاہتا ہے لیکن ابھی پوری طرح سے بنا نہیں پایا
سجاد خالد
فروری 2016
