×

Nastaliq Lahori – نستعلیق لاہوری

زبان، رسوم، لباس اور ادب اپنے اردگرد سے اثر لے کر ایک خاص مقام پر اپنا جدا رنگ جما لیتے ہیں۔ یہی مقام کسی سماج کی پہچان کی ہر علامت کا امین ہو جاتا ہے۔اسی مقام پر وہ پیمانے بنتے، پروان چڑھتے اور بدلتے رہتے ہیں جن کی بنیاد پر حُسن کی ہر ممکن صورت کی تعریف اور تحسین کی جا سکتی ہے۔ فضاء آزادانہ ہو تو حُسن میں ایک بانکپن، سادگی، ادا اور دلیری جھلکتی ہے اور اگر نسبتاً خوف زیادہ ہو یا ذہنی غلامی کا ماحول ہو تو معیارِ حُسن اپنا مرکز، مقام یا قبلہ کھو بیٹھتا ہے اور فرد اپنی زمین سے اجنبی ہو کر بچھڑ جاتا ہے۔

سرِ دست میں نستعلیق کے ایک خاص انداز پر بات کروں گا جسے لاہوری انداز کہا جاتا ہے۔کیا تہذیب کا شعور رکھتے ہوئے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ ہم لاہوری انداز میں کیوں لکھتے ہیں۔ ایک عام آدمی ایسے سوال نہیں کرتا کیونکہ یہ اس کا سوال نہیں ہے۔یہ سوال اپنی تہذیب کے بارے میں کم اور دوسروں کے بارے میں زیادہ معلومات رکھنے والے جدید تعلیم یافتہ فرد کا ہو سکتا ہے۔ یہ سوال اپنے فنکاروں کے بارے میں کسی بدقسمتی سے نہ جان سکنے والے کسی ایسے کم علم فنکار کا ہو سکتا ہے جو کسی دوسرے ملک کی مادی ترقی سے مرعوب ہو کر ان کے معیار کو اپنا کر مطمئن ہو سکتا ہے۔یہ سوال وہ شخص بھی کر سکتا ہےجو اپنے فنپارے کے مقامی معیاراتِ خط پر پرکھے جانے سے گھبراتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے اردگرد ایسے بیشمار لوگ ہیں جو کہہ سکتے ہیں کہ یہ نون، یہ جیم اور یہ شین درست نہیں۔ وہ اس مسئلے کا حل یہ نکالتا ہے کہ وہ خط لکھا جائے جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ آپ کو اس کے بارے میں علم نہیں، یہ تو ایرانی یا ترکی نستعلیق ہے یا یہ تو نستعلیق نہیں بلکہ تعلیق ہے۔ اسے تو خطِ فارسی کہتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ ڈالتا ہے کہ یہ خط تو میری ایجاد ہے اس کے اصول و ضوابط کے بارے میں کوئی اور شخص بات کرنے کا حق ہی نہیں رکھتا۔یہ بالکل ایسے ہے کہ اردو میں ڈھنگ کا ایک مضمون نہ لکھ سکنے والے انگریزی، عربی یا فارسی میں لکھنا شروع کر دیں اور اعتراض کے جواب میں فرمائیں کہ بھائی آپ کو کیا معلوم اس بدیشی زبان کے اصول کیا ہیں۔

میری رائے میں بڑا فن اپنے مقام سے پورے اعتماد، دلیری اور سرشاری کے ساتھ پھوٹتا ہے۔ بڑا فنکار دور دراز کا علم تو رکھ سکتا ہے لیکن اس کو قبول کرنے کے لئے اپنا برتن استعمال کرتا ہے۔ بڑا فنکار اپنی تہذیب کی تربیت یافتہ آنکھ کے سامنے اپنا کام پیش کرتا ہے۔ یہی آنکھ اس پر تنقید کر کر کے اسے تراشتی ہے اور یہی آنکھ اسے شرفِ قبولیت بخشتی ہے۔استثناء تو ہر جگہ مل جاتے ہیں لیکن جیسے ہر زبان کی بڑی شاعری اس کے بولنے والوں کے قلم سے پھوٹتی ہے یا ہر تہذیب کا بڑا فنکار اس کی مٹی میں پرورش پاتا ہے اسی طرح بہترین خط بھی مقامی ماحول ہی میں پروان چڑھتا ہے۔

منفی لسانی یا علاقائی عصبیت کے زیرِ اثر لاہوری نستعلیق کی لاہور سے نسبت کی وجہ سے بھی کچھ لوگ بدکتے ہیں۔ یہی لوگ حافظ اور سعدی کو شیرازی، شمس کو تبریزی اور جلال الدین کو رومی کہتے ہیں۔کہیں ایک قیمتی بات پڑھی تھی کہ

ہر مقامی بات آفاقی نہیں ہوتی لیکن ہر آفاقی بات مقامی ہوتی ہے۔

لاہوری نستعلیق اس کا ہے جس کی بنیادیں برصغیر کے خطہ پنجاب یا اس کے گرد و نواح میں ہیں، جو اس سے لطف اندوز ہوتا ہے، جو اسے سیکھتا ہے اور اس انداز میں کام کرتا ہے، وہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں جا کر آباد ہو جائے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ البتہ ہر مقام پر اس کے فن پر کچھ اضافی اثرات پڑنے کا امکان ہوتا ہے۔

لاہوری نستعلیق ہو یا کوئی بھی دوسرا نستعلیق سب کی اپنی اپنی تاریخ ہے اور اس تاریخ میں ایرانی تعلیق شامل ہے۔یعنی اگر ایران میں تعلیق جنم نہ لیتا، یہ قدیم فارسی کا رسم الخط نہ بنتا، ترقی کر کے نستعلیق نہ بنتاا اور وسطِ ایشیاء سے ہندوستان آ کر قابض ہونے والوں کی زبان فارسی نہ ہوتی تو یقیناً ہم بھی نستعلیق نہ لکھ رہے ہوتے۔ لیکن جس طرح باہر سے آنے والی ہر قدر جب ہندوستان میں آ کر اپنی شکل بدلتی ہے تو یقیناً نستعلیق کو بھی اپنی صورت بدلنی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تین اہم انداز سامنے آئے۔ لکھنوی، دہلوی اور لاہوری۔جس طرح اردو ایک الگ زبان ہے اسی طرح اس کا اپنا رسم الخط بھی الگ ہے۔ لکھنؤ میں شاعری کرنے اور افسانہ لکھنے والے کے ذوق کی تسکین وہیں کے کسی خوش نویس کے قلم سے ممکن ہے۔ دہلی میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والے ادیب خواب میں اپنے کسی خوشنویس کے قلم سے اپنی تحریر لکھی دیکھتے ہوں گے اور پاکستان کے لکھاری بالعموم اپنی کتاب کا سرورق لاہوری یا دہلوی انداز میں دیکھنے کی تمنا رکھتے ہوں گے۔ یہی نہیں بلکہ مقامی مصوروں (صادقین، حنیف رامے، اسلم کمال وغیرہ)نے روایتی خطاطی سے کچھ ہٹ کر جو جداگانہ انداز اختیار کیے وہ بھی مقامی طور پر پسند کیے جا سکتے ہیں۔

ایران میں نستعلیق کے معلوم موجد تو میر علی تبریزی ہیں لیکن یہ ماننا بالکل مشکل نہیں کہ انسانی ایجادات ایک دم سے وجود میں نہیں آتیں بلکہ ان سے پہلے بھی ایجادات کا ایک ترتیب وار سلسلہ موجود ہوتا ہے۔ یہ بات بھی سب کے علم ہے کہ تعلیق اس سے بہت پہلے رائج تھا اور اس کا مجموعی مزاج، روش، سطربندی نستعلیق پر حاوی ہے بلکہ بہت سی اشکال اور پیوند آج بھی اسی طرح یا ملتی جلتی صورتوں میں مستعمل ہیں۔ ان کا یہ کارنامہ اہم ہے کہ نسخ میں پیوندوں کی وضاحت کو قبول کر کے اسے تعلیق کے مزاج میں ڈھال کر نسبتاً جدید شکل ایجاد کر ڈالی۔ یہ بات اگرچہ تحقیق طلب ہے کہ اس عمل میں انہیں کیسی کیسی معاونت ملی اور کن کن صاحبانِ فن کے مشورے اور تعاون شاملِ حال رہے۔بہرحال ان کے ذریعے جدید دنیا کوایسا رسم الخط ملا جس کو بیک وقت عجم و عرب سمجھ سکتے تھے۔ ایران میں اسلام کی آمد کے بعد رسم الخط میں ترقی کا یہ اہم ترین سنگِ میل ہے۔میر علی تبریزی رحمہ اللہ کے ذریعے ہمیں نستعلیق کے اصولوں کا بنیادی نقشہ ملا جس میں بعد ازاں میر عماد الحسنی رحمہ اللہ اور میر علی ہروی رحمہ اللہ وغیرہم نے رنگ بھرے۔

ہر خط کی ابتداء کتاب کی لکھائی سے ہوئی ہے۔ اس لئے سطر پر حروف کی اشکال کی بنیاد پر کرسیاں بنا دی گئیں ہیں۔نستعلیق سے پہلے کتاب کی سطر سیدھی نہیں ہوتی تھی بلکہ دائیں سے بائیں جاتے ہوئے بتدریج اوپر کی جانب اٹھتی تھی۔ یوں یہ ایک بیضوی قوس کی صورت اختیار کر لیتی تھی جس کے نیچے والی خالی جگہ کو اگلی سطر کی قوس بھر دیتی تھی۔ کتاب میں مسلسل عبارت کی وجہ سے ایک مجموعی توازن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن سطر کے درمیان عموماً کمپوزیشن کی ضرورت نہیں ہوتی۔اگرچہ بڑے خوش نویس اس بات کا اہتمام بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہر سطر اپنی جگہ پر مرتب صورت میں بنے اور پورا صفحہ ان مرتب سطور کا حسین امتزاج بن سکے بلکہ تمام صفحات کے درمیان ترتیب کا ایک آہنگ دکھائی دے۔قدیم لٹریچر کاایک بڑا حصہ کیونکہ شاعری پر مبنی تھا اس لیے سطر میں کمپوزیشن یا ترکیب کی ضرورت کا احساس شاعری لکھتے وقت زیادہ ہؤا۔ داستانیں طویل نظموں یا مثنوی کی صورت لکھی جاتیں بلکہ شاعری کی اس خوبی (کہ وہ ذہن میں یاد رہ جاتی ہے ) کی وجہ سے مختلف علوم و فنون اور اقوالِ بزرگاں کو بھی شاعرانہ اسلوب میں لکھا جاتا تھا۔

شاعری میں مصرعوں کا سائز مختلف ہوتا ہے کیونکہ ہر مصرع میں الفاظ کی تعداد یکساں نہیں ہوتی بلکہ ان کے صوتی اوزان اہم ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ردیف اور قافیے کی رعایت بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کے لئے کششیں کھینچی گئیں یا حروف کی مختصر اور لمبی اشکال اختراع کی گئیں۔ کشش کی رعایت سے پیوندوں کی اقسام بنانی پڑیں۔ جب یہ کام ہو گیا تو عمارتی خطاطی کا چیلنج سامنے آ گیا جس میں افقی اور عمودی لائنوں کے علاوہ کاغذ کے تناسب سے ہٹ کر مختلف خالی جگہوں کو بھرنے کا معاملہ درپیش ہؤا۔ ان نئی نئی چنوتیوں نے نستعلیق کا دامن تخلیقی اداؤں سے بھرنا شروع کر دیا۔

پرنٹنگ کی ایجاد نے خطاطی کے فن کو سب سے بڑے چیلنج کے سامنے لا کھڑا کیا۔ یہ وہ دور تھا جب اکثر خطوط اپنے عروج پر پہنچ چکے تھے۔ اور میں اس کی تفصیل بعد میں لکھوں گا کہ اب تک ہمارے خطاط پرنٹنگ کے چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔ چند لوگوں کو چھوڑ کر اکثر اس امتحان میں کسی ایک شئے کا تقاضا پورا کر پائے یعنی یا تو وہ اچھا نستعلیق لکھ سکے یا ایسا لکھ سکے جو اچھا چھپ سکے۔

اس سے اگلا مرحلہ مزید خطرناک تھا اور وہ تھا ایڈورٹائزنگ کمپنیوں میں کاتبوں سے انگریزی والی لائنوں میں نستعلیق اور نسخ لکھوانا۔ اس عمل کے نتیجے مزید خرابیوں نے جنم لیا۔ پاکستان بننے کے بعد تمام بڑی ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کے صدر دفاتر سابقہ دارالحکومت کراچی میں قائم ہوئے اور ان میں آرٹ ڈائریکٹر انگریز ہوتے تھے۔ اشتہارات عموماً باہر سے بن کر آتے تھے اور عبارت کی جگہ اور لائنوں کی تعداد تک طے ہوتی تھی۔ اس انگریزی سانچے اور ڈھانچے میں نستعلیق کو ایسے گھسایا گیا جیسے سانپ کے بل میں مرغے کو داخل کیا جائے۔ اب آپ اندازہ کر لیں جو کچھ مرغے کے ساتھ ہو سکتا ہے وہ سب نستعلیق کے ساتھ ہؤا۔ مجھے موقع ملا تو میں اپنی بات کے ثبوت کے طور پر مثالیں پیش کروں گا۔

اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ خط کی اشکال میں زمانے کے چیلنجز نے تبدیلیاں کروائیں اور وہ کرواتا رہے گا لیکن سنجیدہ فنکار منفی تبدیلیوں کو روکتے اور مثبت پیش رفت کو قبول کرے ہیں۔

ہمارے اساتذہ بلکہ ہر زمانے کے اساتذہ اس عمل سے بخوبی واقف تھے۔ اس لئے وہ جانتے تھے کہ وہ ہمارے حوالے خط کی حتمی شکل نہیں دے کر جا رہے بلکہ جو کچھ اپنی استعداد کے مطابق وہ سیکھ سکے وہ منتقل کر رہے ہیں۔ اور لاہوری نستعلیق کے جن اساتذہ کے ساتھ میرا وقت گزرا ہے وہ اپنی خواہشیں، حسرتیں اور مسائل بھی بیان کرتے تھے۔ جن میں سے سرِ فہرست یہ تھیں

مفت خوروں نے ڈھنگ سے کام نہیں کرنے دیا

نالائق واہ واہ کرنے والوں نے بہت وقت ضائع کر دیا

اساتذہ سے جتنا وقت سیکھنے کے لئے چاہئیے تھا، وہ میسر نہ آ سکا

فکرِ معاش نے معیار کا خون کیا

5- جن اخبارات اور اداروں میں کام کیا ان کے مالکان اور گاہک حضرات کام کی اہمیت اور قدر سے واقف نہ تھے۔ اس لئے وہ رفتار، مقدار اور پرنٹنگ میں آسانی بلکہ سستی پرنٹنگ کو اہمیت دیتے تھے۔

6- کاتب حضرات معاشی طور پر مزدور پیشہ یا لوئر مڈل کلاس سے وابستہ تھے اس لئے وہ نہ تو غیر ملکی دورے کر کے عالمی سطح کے اساتذہ سے براہِ راست سیکھ سکتے تھے اور نہ مہنگی غیر ملکی کتابیں ہی خرید سکتے تھے۔

7- اگر کوئی کتاب کسی ذریعے سے پہنچ جاتی تو اس میں چھپے ہوئے کام کو معیار مان لیا جاتا حالانکہ اس میں پرنٹنگ کی خامی کی وجہ سے کچھ فنپاروں کا خط موٹا ہو جاتا اور کچھ کا ضرورت سے زیادہ باریک۔ ان دونوں معیارات کا معاملہ ایسے ہی تھا جیسے ایک جانب سے زمین پر کھڑے رہنے کی کوشش کی جائے اور دوسری جانب بادلوں کے ساتھ اُڑنے کی۔

ایران میں اس فن کو صدیوں سرکاری سرپرستی حاصل رہی اور آرٹ کی یونورسٹیوں کی طرز پر وہاں اس کی مہارت کے لئے ڈگری کورسز موجود ہیں۔ بیٹھنا کیسے ہے، کاغذ کیسے بنتا ہے، روشنائی کیسے تیار ہوتی ہے اور قلم کیسے تراشا جاتا ہے، ان تمام مرحلوں کو بتدریج ایک نظام کے تحت سالوں پر پھیلا کر سکھایا جاتا ہے۔ اس بات کو ہمارے اساتذہ بھی محسوس کرتے تھے لیکن نہ پوری معلومات مل سکیں اور نہ معلوم شدہ کی تعلیم کا کوئی مناسب انتظام ہو سکا۔

یہ ان اللہ والوں کی ذاتی کوشش کا نتیجہ ہے جو دو چار سر پھرے گردش میں ہیں۔ ایک بیٹھک کاتباں تھی جس کے لئے حکومت نے ایک روپیہ نہیں دیا۔ اس کا کرایہ، بجلی، پانی کے بل تک ہمارے اساتذہ نے اپنی جیب سے ادا کئے۔

اور کمال یہ تھا کہ سکھانے کا کوئی معاوضہ نہیں لیا۔ ایک مٹھائی کا ڈبہ اپنی مرضی سے کبھی کوئی غریب طالب علم لے کر آتا جسے وہیں دوسرے سیکھنے والوں میں تقسیم کر دیا جاتا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق مرحوم نے صوفی صاحب رحمہ اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بیٹھک کو قومی ورثہ بنا دیں گے اور یہ عمارت خرید کر خطاطی کے لئے وقف کر دی جائے گی لیکن جو کچھ ہؤا وہ آپ سب کو معلوم ہے کہ شاید 2006 میں اس کے مالک نے مقدمہ جیت لیا اور اسے مسمار کر کے نئی عمارت بنا لی۔ اس کے گرنے سے پہلے میں نے اس کی تصاویر لی تھیں جو میرے پروفائل پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

ان حالات میں یہ توقع رکھنا کہ نستعلیق لاہوری کے اصول و ضوابط مرتب ہو رہے ہوں گے اور مستقبل کے لئے کورسز بنائے جا رہے ہوں گے کسی حد تک حقیقت سے آنکھ چرانا ہے۔ اگرچہ مرقع زریں، صحیفہ خوشنویساں، ارژنگِ چین، اعجاز رقم، مرقع نگارین اور تدریسِ خطاطی جیسے کام منظرِ عام پر آئے لیکن یہ بھی حروف کی اشکال کی ابتدائی بحث سے آگے نہ بڑھ سکے۔

ہمارا کل سرمایہ خراب چھپائی (Printing) کے ذریعے سو دو سو اخباری سرخیاں، چالیس پچاس رباعیات، قطعات، چند پوسٹرز، کچھ سائن بورڈز اور کچھ منہدم ہوتی اور مٹتی ہوئی عمارتی خطاطی ہے۔ سچی بات ہے ہمارے پاس پرنٹنگ کی ضروریات سے ہٹ کرایسے قلمی نسخے بہت کم تعداد میں موجود ہیں جن کی بنیاد پر ہم کسی مستقل معیار کا اعادہ کر سکیں۔

اس لئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہم لاہوری نستعلیق کے آخری نہیں بلکہ ابتدائی دور ہی سے گزر رہے ہیں جہاں ابھی ایک جہانِ تخلیق آباد ہونا ہے بلکہ ہوتے رہنا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ زلفِ نستعلیق ہم نالائقوں کے ہاتھوں سنورے گی یا مزید پریشاں ہو جائے گی۔